اشکال
اگر جناب ابوبکر کی نقل شدہ حدیث صحیح ہوتی تو ضروری تھا کہ رسول خدا ﷺ کے تمام اموال کو لے لیا جاتا لہذا وارثوں کو آپ کے لباس، زرہ، تلوار، سواری کے حیوانات، دودھ دینے والے حیوانات، گھر کے اساس سے بھی محروم کردیا جاتا اور انہیں بھی بیت المال کا جزو قرار دے دیا جاتا حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ جناب رسول خدا (ص) کے اس قسم کے اموال ان کے وارثوں کے پاس ہی رہے اور کوئی تاریخ بھی گواہی نہیں دیتی اور کسی مورخ نے نہیں لکھا کہ جناب ابوبکر نے رسول خدا (ص) کا لباس، تلوار، زرہ، فرش، برتن و غیرہ اموال عمومی میں شامل کر کے ضبط کر لئے ہوں بلکہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ آپ کے مکان کے کمرے آپ کی بیویوں کے پاس ہی رہے اور اس کے علاوہ جو باقی مذکورہ مال تھا آپ کے ورثاء میں تقسیم کردیا گیا۔ یہ بات بھی ایک دلیل ہے کہ جناب ابوبکر کی حدیث ضعیف تھی اور معلوم ہوتا ہے کہ خود جناب ابوبکر کو بھی اپنی بیان کردہ حدیث کے متعلق اعتبار نہ تھا کیونکہ اگر وہ حدیث ان کے نزدیک درست ہوتی تو پھر رسول خدا (ص) کے اموال میں فرق نہ کرتے۔
جب کہ جناب ابوبکر مدعی تھے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں میراث نہیں چھوڑتا میرا مال صدقہ ہوتا ہے اسی لئے تو پیغمبر ﷺ کی بیٹی اور اسلام کی مثالی خاتون کو رنجیدہ خاطر بھی کردیا تو پھر کیوں پیغمبر ﷺ کے حجروں کو آپ کی ازواج سے واپس نہ لیا؟ اور پھر کیوں دوسرے مذکورہ اموال کا مطالبہ نہ کیا؟
ایک اور اشکال
اگر یہ بات درست ہوتی کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے تو ضروری تھا کہ پیغمبر ﷺ اس مسئلے کو حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) اور حضرت علی (علیہ السلام) سے ضرور بیان فرماتے اور فرماتے کہ میرا مال اور جو کچھ چھوڑ جاؤں یہ عمومی صدقہ ہوگا اور وراثت کے عنوان سے تمہیں نہیں مل سکتا خبردار میرے بعد میراث کا مطالبہ نہ کرنا اور اختلاف اور نزاع کا سبب نہ بننا۔ کیا رسول خدا(ص) کو علم نہ تھا کہ وراثت کے کلی قانون اور عمومی قاعدے کے ماتحت میرے وارث میرے مال کو تقسیم کرنا چاہیں گے اور ان کے درمیان اور خلیفہ وقت کے درمیان نزاع اور جھگڑا رونما ہوجائے گا؟ یا رسول اللہ (ص) کو اس بات کا علم نہ تھا لیکن آپ نے احکام کی تبلیغ میں کوتاہی کی ہوگی؟ ہم تو اس قسم کی بات پیغمبر (ص) کے حق میں باور نہیں کرسکتے۔
بعض نے کہا ہے کہ رسول خدا(ص) پر اپنے ورثاء کو یہ مطلب بیان کرنا ضروری نہ تھا بلکہ صرف اتنا کافی تھا کہ اس مسئلے کو اپنے خلیفہ جناب ابوبکر جو مسلمانوں کے امام تھے بتلادیں اور خلیفہ پر ضروری ہے کہ وہ احکام الہی کو نافذ کرے چنانچہ پیغمبر(ص) نے جناب ابوبکر کو یہ مسئلہ بتلادیا تھا لیکن یہ فرمائشے بھی درست معلوم نہیں ہوتی ۔۔۔ اوّل تو یہ کہ جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کے زمانے میں آپ کے خلیفہ معین نہیں ہوئے تھے کہ کہا جاسکے کہ پیغمبر(ص) نے انہیں اس کا حکم اور دستور دے دیا تھا دوسرے میراث کے مسئلہ کا تعلق پہلے اور بالذات آپ کے ورثاء سے تھا انہیں وراثت میں اپنا وظیفہ معلوم ہونا چاہیئے تھا تا کہ حق کے خلاف میراث کا مطالبہ نہ کریں اور امت میں اختلاف اور جدائی کے اسباب فراہم نہ کریں۔
آیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی (ع) جو مدینہ علم کا دروازہ اور جناب فاطمہ (ع) جو نبوت اور ولایت کے گھر کی تربیت یافتہ تھیں ایک اس قسم کے مہم مسئلے سے کہ جس کا تعلق ان کی ذات سے تھا بے خبر تھیں، لیکن جناب ابوبکر کہ جو بعض اوقات عام اور عادی مسائل کو بھی نہ جانتے تھے اس وراثت کے مسئلے کا حکم جانتے ہوں؟ کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جناب فاطمہ (ع) اس مسئلے کا حکم تو جانتی تھیں لیکن اپنی عصمت اور طہارت کے باوجود اپنے والد کے دستور اور حکم کے خلاف جناب ابوبکر سے میراث کا مطالبہ کر رہی تھیں؟ کیا حضرت علی (ع) کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ مسئلہ تو جانتے تھے لیکن اس مقام زہد اور تقوی اور عصمت و طہارت کے باوجود اور اس کے باوجود کہ آپ ہمیشہ قوانین اسلام کے اجراء میں بہت زیادہ علاقمندی ظاہر کرتے تھے پھر بھی اپنی بیوی کو پیغمبر(ص) کے بیان کردہ مسئلہ کے خلاف اجازت دے رہے ہیں کہ وہ جائیں اور وراثت کا جناب ابوبکر سے مطالبہ کریں اور پھر مسجد میں وہ مفصل عوام الناس کے سامنے خطاب کریں؟ ہم گمان نہیں کرتے کہ کوئی بھی با انصاف انسان اس قسم کے مطالب کا یقین کرے گا۔
ایک اور اشکال
جناب ابوبکر نے مرتے وقت وصیت کی کہ اسے پیغمبر (ص) کے حجرے میں دفن کیا جائے اور اس بارے میں اپنی بیٹی جناب عائشہ سے اجازت لی۔ اگر وہ حدیث جو پیغمبر (ص) کی وراثت کی نفی کرتی ہو درست ہو تو پیغمبر (ص) کا یہ حجرہ مسلمانوں کا عمومی مال ہوگا تو پھر جناب ابوبکر کو تمام مسلمانوں سے دفن کی اجازت لینا چاہیئے تھی۔
| فہرست |